PK Press

افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ کو بچھڑے 6برس بیت گئے

bano qudsia

اردو ادب کی قد آور شخصیت، امربیل اور راجہ گدھ جیسی ادبی تخلیق

کی خالق، معروف ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 6 سال بیت گئے۔

 

محبت کی تلخ حقیقت، انداز شگفتگی اور شائستگی، اردو زبان پر جاندار گرفت

اور دلکش استعاروں کا استعمال، یہی وہ خصوصیات تھیں جنہوں نے بانو قدسیہ کو اردو ادب کا بڑا نام بنا دیا، بانو قدسیہ 28 نومبر 1928 کو مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں،

تقسیم ہند کے بعد لاہور آگئیں، 1951 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔اشفاق احمد کی حوصلہ افزائی پر

پہلا افسانہ داماندگی شوق 1950 میں سامنے آیا، دسمبر 1956 میں بانو قدسیہ اور اشفاق احمد رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ریڈیو اور ٹی وی پر

بانو قدسیہ اور اشفاق احمد نصف صدی سے زائد عرصے تک حرف و صوت کے رنگ بکھیرتے رہے، ناول ” راجہ گدھ ” کی وجہ سے بانو قدسیہ کو عالمگیر شہرت ملی، بازگشت، امربیل، دوسرا دروازہ، تمثیل اور حاصل گھاٹ بھی قابلِ ذکر ہیں۔

بانو قدسیہ نے ٹی وی کے لیے کئی سیریل اور طویل ڈرامے تحریر کیے جن میں دھوپ جلی، خانہ بدوش، کلو اور پیا نام کا دیا جیسے ڈرامے شامل ہیں۔مرحومہ نے 27 کے قریب ناول،

کہانیاں اور ڈرامے لکھے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں 2003 میں ستارہ امتیاز اور 2010 میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا،

ماڈل ٹاون کا داستان سرائے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی یادیں سمیٹے ہوئے ہے۔

یہ باکمال ادیبہ 4 فروری 2017 کو اس دار فانی کو خیر باد کہہ کر ہزاروں ادب شناس لوگوں کو سوگوار کر گئیں۔

براہ کرم ہمیں فالو اور لائک کریں:

پڑھنے کے پچھلے

بیٹی باغ کا سب سے خوبصورت پھول ہے ،شاہد آفریدی

پڑھنے کے اگلے

توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر پاکستان میں وکی پیڈیا سروسز بلاک

ایک جواب دیں چھوڑ دو

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے