
Young Sudanese sit on a street barricades built overnight by anti-coup demonstrators in the capital Khartoum, following calls for civil disobedience to protest last month’s military coup, on November 7, 2021. – The preparation by demonstrators followed calls for civil disobedience made by the Sudanese Professionals Association (SPA), an umbrella of unions which were instrumental in the 2018-2019 protests which ousted the longtime autocratic president Omar al-Bashir. (Photo by AFP)
سوڈان کے کئی شہروں میں سکیورٹی فورسز نے فوجی بغاوت کے خلاف نکالے جانے والی ریلیوں کے مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا ہے۔
مظاہرین فوج کے کنٹرول کے خلاف ملک کے کئی شہروں میں دو دن کی سول نافرمانی کے تحت سراپا احتجاج ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کو سوڈان کے شہر خرطوم، اومدرمن، ودمدنی اور اطبارہ میں سینکڑوں مظاہرین بغاوت کے خلاف ریلیاں نکال رہے تھے۔
مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ ’اقتدار عوام کا ہے۔‘ انہوں نے فوجی حکمرانی کی مخالفت کرتے ہوئے ’سویلین حکومت‘ کا مطالبہ کیا۔
سوڈان بھر میں فوج کے قبضے کے بعد سے 25 اکتوبر سے احتجاج کی لہر جاری ہے۔ تاہم ان مظاہروں کو سخت کریک ڈاؤن کا سامنا رہا ہے۔
سینٹرل کمیٹی آف سوڈان ڈاکٹرز کے مطابق ان مظاہروں کے دوران کم از کم 14 افراد ہلاک اور تقریباً 300 زخمی ہوئے ہیں۔
اومدرمن میں اتوار کو مظاہرہ دیکھنے والی ہدیٰ عثمان کا کہنا تھا کہ ’مظاہری نے گلیاں بند کر دی تھیں، گاڑیوں کو آگ لگا رہے تھے، فوجی حکمرانی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ لوگ سویلین حکومت چاہتے ہیں۔‘
تقریباً دو ہفتے قبل جنرل عبدالفتاح البرہان نے حکومت اور فوجی سویلین خودمختار کونسل کو تحلیل کر دیا تھا۔ یہ کونسل ملک کو مکمل سویلین حکمرانی کی طرف لے جانے والی تھی۔
جنرل عبدالفتاح البرہان نے ایمرجنسی نافذ کردی تھی اور سوڈان کی سویلین قیادت کو حراست میں لے لیا تھا۔
وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو کچھ دیر کے لیے حراست میں لیا گیا تھا اور پھر انہیں موثر نظر بندی میں رکھ دیا گیا تھا۔
سرکاری میڈیا کے مطابق جنرل عبدالفتاح البرہان نے اتوار کو عرب لیگ کے ایک وفد سے ملاقات کی تھی۔